1 ۔ نماز تراویح اسلام میں سنت مئوکدہ ہے اس بات پر کسی کا کوئی اختلاف نہیں ہے اس کو ترک کرنا جائز نہیں اگر چہ سرکارصلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں اسکی باقاعدہ جماعت نہیں ہوتی تھی لیکن اآپ صلی اللہ علیہ وسلم اسکو اکثر پڑھا کرتے تھے
2۔ نبی اکرم کبھی کبھی اس کر ترک فرما دیتے تھے اس خوف سے کہ کہیں یہ امت پر فرض نہ ہوجائے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہہ ایک رات مسجد میں تشریف لائے تو لوگوں کو تنہا ناز پڑھتے ہوئے دیکھا تو فرمایا کہ میں مناسب جانتا ہوں کہ ان سب کو ایک امام کے ساتھ جمع کر دوں تو اآپ نے امام ابی ابن کعب کو بنایا تو سب کو انکے پیچھے جمع کردیا پھر دوسری رات تشریف لائے تو ملاحظہ فرمایا کہ تمام لوگ ایک امام کے پیچھے نماز پڑھ رہے ہیں تو آپ نے فرمایا نعمت البہ عۃ ھذہ یہ اچھی باعت ہے۔ ( حوالہ راوہ اصحاب السنن)
اعتراض
بعض لوگوں کے زھن میں یہ سوال ہو گا کہ جب نبی پاک صلی للہ علیہ وسلم کے دور میں نماز تراویح کی جماعت نہیں تھی تو پھر آج کیوں؟ یہ تو صحابہ اکرام کا عمل تھا پھر قیامت تک جماعت کیوں؟
جواب
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میری سنت اور سنت خلائے راشدین کو اپنے اوپر لازم سمجھو لہذا ہمارے لیے خلفائے راشدین کہ اعمال پر افعال اقوال پر عمل کرنا لازم ہے لہذا نمازتراویح با جماعت پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
تراویح کی رکعات
جمہور کا مذہب یہی ہے کہ تراویح کی رکعات بیس (20)ہیں
دلیل
1۔ بیہقی نے بسنہ سحیح سائب بن یزید رضی اللہ عنہ سےروایت کیا ہے کہ لوگ فاروق اعظم کے دور میں بیس رکعتیں پڑھا کرتے تھے۔
2۔ مئوطا میں یزید بن رومان سے روایت ہے کہ عمر فاروق کے زمانہ میں لوگ رمضان میں تیس رکعتیں پڑھتے تھے اور اس میں تین وتر کی تھی۔
تراویح کا وقت
تراویح کا وقت فرض عشائ سے لیکر طلو ع فجر تک ہے