جب رب اپنے بندوں سے پوچھے گا کہ کیا تم نیکی کی دعوت دیتے تھے تو سوچو کیا جواب دو گے۔
دوسروں کی برائیاں تو بڑھ چڑھ کر بتاتے ہیں۔ کبھی اپنے گریبان میں بھی جھانک کر دیکھ لیا کریں۔
آج یہ حالات ہیں کہ ہمارے گھروں میں قرآن و حدیث کی کتابوں کے بجائے گانے اور فلموں کی کیسٹوں اور سی ڈیز کا قبضہ ہے۔
یاد رکھیں نفس پر قابو پانے میں عقل کا بہت اہم کردار ہے۔
آج صورت حال یہ ہے کہ لوگوں کو اپنے حقوق تو یاد ہیں مگر اپنے رب کے احکامات یاد نہیں۔
افسوس! آج بندہ گناہ تو کرتا ہے مگر اس پر اسے ذرا بھی ندامت نہیں ہوتی۔
شرمندگی کی بات تو یہ ہے کہ آج اگر کسی کو کوئی عہدہ مل جائے تو وہ کسی کو انسان ہی نہیں سمجھتا۔
آج والدین کے پاس اتنا وقت نہیں ہے کہ اپنی اولاد کی اصلاح کر سکیں۔
گناہ کر کے شیطان کو ذمہ دار ٹھہرانا کوئی عقلمندی نہیں ہے۔
اللہ جب کسی کو نور بصیرت عطا فرماتا ہے تو وہ سب سے پہلے اپنے نفس کے عیب دیکھتا ہے۔
اپنے اندر احساس گناہ پیدا کریں تمام معاملات خودبخود درست ہو جائیں گے۔