الحاج صوفی محمد شوکت علی قادری ادارہ جامعہ انوار مدینہ قاسمیہ کے بانی و سرپرست ہیں۔ آپ کا کہنا ہے کہ ہمیں اپنی عبادات کو صرف رمضان کے مہینہ تک محدود نہیں کرنا چاہیے۔ رمضان کا اصل مقصد تو بندہ مومن کو اللہ کی عبادت کی طرف راغب کرنا ہے اور اس کے گزرنے کے بعد اس کے تسلسل کو جاری رکھنا ہے۔ لہذا مزہ توتب ہے کہ بندہ رمضان کے بعد بھی ان عبادات کو قائم رکھے اور استقامت اختیار کرے۔ مگر افسوس! آج صورت حال یہ ہے کہ جیسے ہی رمضان کا مہینہ ختم ہوتا ہے، مساجد میں نمازیوں کی تعداد نصف سے بھی کم رہ جاتی ہے، قرآن مجید دوبارہ الماریوں میں رکھ دیے جاتے ہیں، جھوٹ، دھوکہ، بدکاری و بد زبانی جیسے عمل دوبارہ شروع کر دیئے جاتے ہیں۔ مگر دوسری طرف الحمد اللہ کچھ ایسے خوش نصیب لوگ بھی ہیں جو رمضان گزرنے کے بعد بھی اپنی زندگی رمضان المبارک کی طرح گزارتے ہیں اور ان کی جائے نمازیں سجدوں سے اور ان کے قرآن کریم کے نسخے تلاوت سے ہمیشہ آباد رہتے ہیں۔ تو ہمیں اپنا احتساب خود کرنا ہے کہ ہمارا شمار کن لوگوں میں ہوتا ہے۔ اگر ہمارا شمار پہلے والوں میں ہے تو ہمیں اپنی اصلاح کی ضرورت ہے۔ ایک سوال کے جواب میں صوفی شوکت علی قادری صاحب نے کہا کہ اللہ پاک نے مجھے جس عہدے سے نوازہ ہے اس کے مدنظر رکھتے ہو ئے میری یہ کوشش ہے کہ لو گو ں کا اللہ پاک سے ٹوٹا ہوا رشتہ استوار کروں اور اس کو زیادہ سے زیادہ مضبوط کروں ،انہوں نے کہا کہ میری زندگی کا مقصداب صرف اور صرف اسلام کی خدمت کر نا اور لوگوں کے مسائل کو اللہ پاک کے کلا م سے حل کر نا ہے۔ ادارہ انوار مدینہ قاسمیہ کے بارے میں بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جامعہ انوار مدینہ قاسمیہ تنظیم المدارس اہلسنت پاکستان سے ملحق ادارہ ہے۔ تعلیم میں درس نظامی کا نصاب پڑھایا جاتا ہے، ناظرہ اور حفظ القرآن کی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔ درس نظامی کے نصاب کے ساتھ ساتھ میٹرک کا امتحان بھی لاہور بورڈ سے دلوایا جاتا ہے۔ حفظ و ناظرہ کے طلباء و طالبات کو قرآن و حدیث کی تعلیم کے ساتھ ساتھ دنیاوی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔ ادارہ طلباء و طالبات کو کتابیں ، کاپیاں بھی فی سبیل اللہ فراہم کرتا ہے۔ اس کے علاوہ فلاحی کاموں میں، انوار مدینہ مغل آئی ہسپتال شامل ہے جس میں آنکھوں کا معائنہ اور دوا مفت دی جاتی ہے، انوارمدینہ قاسمیہ کے زیر اہتمام ہر سال اجتماعی اعتکاف کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے جس میں معتکفین کے لیے بلا معاوضہ سحروافطار کا اہتمام کیا جاتا ہے، رمضان المبارک میں غریبوں میں راشن کی تقسیم، سردیوں میں مستحقین میں گرم کپڑے اور جوتوں کی تقسیم، عید الضحی پر گوشت کی تقسیم، غریب یتیم بچیوں کی اجتماعی شادیوں کا اہتمام جیسے بیشمار کام شامل ہیں۔ راشن کی تقسیم سے متعلق صوفی شوکت علی قادری صاحب کا کہنا تھا کہ سب سے بہترین عمل تو یہ ہے کہ ہر صاحب اسطاعت خود اپنے ہاتھوں سے اپنے رشتہ داروں، دوستوں اور ہمسائیوں کو راشن تقسیم کرے کیوکہ وہ سب سے بہتر جانتا ہے کہ اس راشن کا صیح حق دار کون ہے۔