بسم الله الرحمن الرحیم
میلاد النبیﷺ کا روحانی جلوس تاریخی اعتبار سے جامعہ انوار مدینہ کا وجود جب سے ہے اُس وقت سے پیر طریقت رہبر شریعت الحاج صوفی محمد شوکت علی قادری دامت برکاتہ القدسیہ کی سرپرستی میں ہر سال ترقی کی راہ پر گامزن ہے ۔ جس کا آغاز جامعہ انوار مدینہ شروع ہوتا ہے ۔ اور جی ٹی روڈ سے ہوتے ہوئے وہ موریہ پل سے گزر کر شاہ محمد غوث دربار عالیہ پر پہنچتا ہے ۔ مختصر بیان و دعا کے بعد حضور شہنشاہِ ولایت گنج بخش عالم حضرت داتا علی ھجویری رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے دربار اقدس کی طرف رواں ہو جاتا ہے ۔ اور دربار عالیہ پر پہنچنے کے بعد جامعہ کے روح رواں قبلہ پیر صوفی محمد شوکت علی قادری صاحب مرکزی دعا فرماتے ہیں ۔ یاد رہے کہ اِس مقدس جلوس میں حضرت خود اپنے صاحبزادگان سمیت اور ہزاروں مریدیں پیدل چل کر داتا صاحب رحمۃ اللہ علیہ حاضری دیتے ہیں اور اس جلوس میں تقدس کو باقی رکھنے کیلئے ایک منظم طریقہ سے اپنی منزل تک پہنچایا جاتا ہے جس میں جامعہ کی سیکیورٹی کا خصوصی کردار ہوتا ہے ۔ اور شرکاء جلوس میں ہر عمر کے افراد شریک ہوتے ہیں۔
چھوٹے بچوں سے لے کر عمر رسیدہ بزرگوں تک ۔ لیکن خواتین کو اِس جلوس میں شامل ہونے کی اجازت ہرگز نہیں میں سالانہ محفل میلاد النبیﷺ(T.T.C سنٹر Education Department Mughalpura ) ہوتی ۔ البتہ مستورات
کا انعقاد کیا جاتا ہے ۔ جس میں جامعہ کی سینئر ٹیجرز کے علاوہ دیگر جامعات سے بھی معلمات اپنے اصلاحی بیانات سے حاضرین مستورات کے قلوب واذہان میں ﷺکی شمع روشن کرتی ہیں۔
راقم الحروف نے اپنی نظر میں ایسا جلوس کا روح پرور منظر نہیں دیکھا ۔ کہ عموماً صبح کے وقت جب سب لوگ سوئے ہوتے ہیں۔ تو قبلہ پیر طریقت کے چاہنے والے ساری رات حضرت کے ساتھ شب بیداری کرتے ہیں۔ فجر کی نماز کے فوراً بعد تو مخلوق خدا کا سمندر اُمڈ آتا ہے اور اس جلوس میں ہر سال اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا اپنے
محبوب صلی اللہ علیہ وسلم سے وعدہ ہے:
ولاخرہ خیرلک من الاولٰی ة
اے محبوبﷺ! آپ کا ہر آنے والا زمانہ پہلے سے بہتر ہوگا۔
میلاد النبی ﷺکا جلوس شرعاً جائز اور مستحب عمل ہے۔عوام اہلسنت کو ڈبل مائنڈ کرنے کیلئے کچھ اور یہ کہتے نظر آتے ہیں۔ کہ جب حضورﷺنے خود جلوس نہیں نکالا تو تم کیوں نکالتے ہو۔شریعت مطہرہ نے کہیں یہ اصول بیان نہیں کیا کہ جو کام نبی ﷺنے کیا ہو بس وہی جائز ہے اور باقی سب نا جائز ۔ اگر یہ اُصول بنایا جائے تو فی زمانہ میں لاکھوں اُمور کا ارتکاب نا جائز ہوگا ۔ جیسے مساجد کا پختہ کرنا ۔ اِن میں اے۔ سی لگانا۔ اسپیکر میں اذان دیناوغیرہ ۔ کئی مثالیں عاقل کے ذہن میں موجود ہیں۔ مولوی نوز بخش صاحب توکلی حضور اکرم سید عالم ﷺکی ہجرت کا واقعہ بیان کرتے ہوئے تحریر کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ جب مدینے کے قریب موضع غیم میں پہنچے جو رابغ اور جحفہ کے درمیان ہے ۔ تو بریدہ اسلمی قبیلہ بنی سیم کے سترسوار لے کر حضور انعام کی امید پر آنحضرتﷺ کو گرفتار کرنے آیا ۔ رسولﷺ نے فرمایا کہ تو کون ہے ۔ تو اُس نے جواب دیا کہ میں بریدہ ہوں یہ سن کر آپ ﷺنے حضرت ابوبکر صدیقؓ سے بطور فال نکالتے ہوئے فرمایا ابو بکر ہمارا کام خوش و خشک اور درست ہو گیا۔ پھر آپ نے بریدہ سے پوچھا کہ تو کس قبیلے سے ہے۔ اُس نے کہا بنو اسلم سے آپ نے حضرت ابوبکر صدیقؓ سے فرمایا ہمارے لیے خیر و سلامتی ہے ۔ فر پوچھا کہ کون سے بنی اسلم سے اُس نے کہا بنو سہم سے آپ نے فرمایا تو نے اپنا حصا سلام سے پالیا بعد ازاں بریدہ نے حضرت سے پوچھا کہ آپ کون ہیں ؟ حضورﷺ نے فرمایا کہ میں اللہ کا رسول محمد بن عبد اللهﷺ ہوں ۔ بریده نے نام سن کر کلمہ شہادت پڑھا اور مسلمان ہو گیا ۔ جو سوار حضرت بریدہؓ کے ساتھ تھے وہ بھی مشرف بالاسلام ہو گئے ۔ حضرت بریدہؓ نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ مدینہ میں آپ کا داخلہ جھنڈے کے ساتھ ہونا چاہیے بس اپنا عمامہ اُتار کر نیزہ پر باندھ لیا اور حضورﷺ کے آگے آگے روانہ ہوئے۔ اور یہ جلوس کی ایک صورت ہی تھی۔
سیرت رسول عربی صفحہ نمبر 66 , 67